خیبر صہیون تحقیقاتی ویب گاہ: آج سینما کا کردار ایک مقبول ذریعۂ ابلاغ کے طور پر عوام کی زندگی میں بہت اہم ہے کیونکہ لوگ اسے تفریح کے لئے دیکھتے ہیں لیکن انجانے میں اس سے اثر لیتے ہیں۔ سینما نے جاذب اور دلچسپ ہونے کے ناطے عالمیمعاشروں کے رویوں، طرز زندگی اور حتی کہ سیاسی، معاشی اور ثقافتی رویوں اور افکار کو متاثر کردیا ہے۔ اسی بنا پر آپ دیکھتے ہیں کہ مغرب اور ہالیووڈ نے کس طرح اقوام کے طرز زندگی کو بدل ڈالا ہے اور انسانی معاشروں کو سیکولرزم اور لبرل معاشرے کی طرف پہنچا دیا ہے۔ (۱)
دلچسپ امر یہ ہے کہ مغربی سینما بالخصوص ہالی ووڈ نے ابتداء ہی سے یہودیت کی کوکھ سے جنم لیا ہے۔ “نیل گیبلر” اگرچہ اپنی مشہور کتاب “ان کی اپنی سلطنت” (۲) (یا ہالیووڈ کی سلطنت) میں سینما انڈسٹریز کی تخلیق کو تھامس ایڈیسن (۳) اورانکے رفقائے کار سے منسوب کرتے ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ یورپ کے مہاجر یہودی ہی تھے جنہوں نے اس صنعت کو اپنے قبضے میں لیا اور اس کو اپنی مرضی سے بدل ڈالا۔ “یونیورسل پکچرز” (۴) “پیراماؤنٹ پکچرز”، (۵) “وارنر برادرز” (۶) “نیوز کارپوریشن” (۷) “ٹوینٹی فرسٹ سنچری فوکس” (۸) اور بہت سی دوسری فلم ساز کمپنیاں یہودی ہیں۔
سینمائی صنعت کے یہودیوں کے صہیونیت کے ساتھ قریبی تعلقات تھے اور ہیں۔ (۹) اس دعوے کے اثبات کے لئے اس سینما اور متعلقہ کمپنیوں اور فلمسازوں کے افسانوی کرداروں نیز “اعلی نسل”، “مادر وطن”، “برگزیدہ قوم” وغیرہ جیسے موضوعات کی طرف اشارہ کیا جاسکتا ہے۔ (۱۰) حقیقت یہ ہے کہ یہ سینما “ہالوکاسٹ”، (۱۱) “حضرت موسی(ع) کی زندگی” جیسی فلموں اور “مرغی کا فرار” (۱۲)انیمیشن فلموں کے ذریعے صہیونیت کو جواز فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے اور صہیونیت کے مقاصد کی راہ میں قدم اٹھاتا ہے۔ (۱۳)
چنانچہ آخرالزمان، یا اختتام دنیا (۱۴) پر اس سینما کی خاص توجہ یہودی صہیونیت کے افکار کے زیر اثر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ آخرالزمانی یا صہیونی تصور کی جڑیں صہیونی عیسائیت کی دینیات، پالیسیوں اور مختلف قسم کے اہداف و مقاصد میں پیوست ہے کیونکہ یہودیوں نے تاریخ کے مختلف مراحل میں عیسائیت کو مسابقت کے میدان سے نکال باہر کرنے کی کوشش کی اور اسے منحرف کرکے مختلف فرقوں میں بانٹ دیا۔ اس تفرقے اور تحریف سے “صہیونی عیسائیت” نامیناجائز اولاد نے جنم لیا جس کے مقاصد، اہداف اور عقائد اختتام دنیا پر اس کی نگاہ، وہی یہودی اور صہیونی نگاہ ہے۔ (۱۵)
البتہ اس حقیقت کی طرف توجہ دینا ضروری ہے کہ یہودیوں کا آخرالزمانی سینما “دانیایل [دانیال] نبی”، “یرمیاہ نبی” اور “حزقی ایل” کی کتابوں اور “دانی ایل (یا دانیال) کے مکاشفات” سے ماخوذ ہے۔انکاوشوں میں آخرالزمان کے مفاہیم علامتی سانچوں میں ڈھالے جاتے ہیں، لہذاانکی تشریح اور تاویل کی جاسکتی ہے اسی بنا پر آخرالزمان سے متعلق مختلف فلموں میں مختلف قسم کے مثبت اور منفی افسانوی کردار یونانی، مصری، رومی، عیسائی (وغیرہ) ثقافتوں سے لئے جاتے ہیں۔
عنوان عکس: فلم میٹرکس (The Matrix)
ہیروسازی، نجات دہندہ کا اعتقاد، نہایت طاقتور شیطانی قوتیں، جارحین کے خلاف تشدد اور عسکریت پسندی کی ضرورت، نیز ملک اور سرزمین پر شیطان اور شر کی قوتوں کا قبضہ صہیونیوں کی آخرالزمانی فلموں کے بنیادی عناصر ہیں۔انفلموں میں مختلف نام اور پیغامات صہیونی مقاصد اور اہداف کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پرفلم “میٹرکس” (۱۶) میں ہم دیکھتے ہیں کہ سایون (۱۷) نامیشہر کے باشندے ـ یعنی صہیونی ـ ہی دنیا بھر کے جنگجو ہیں جو میٹرکس نامیشریر اور بہت طاقتور کمپیوٹر کے خلاف لڑتے ہیں۔
لیکن اس قسم کی فلموں میں جن عناصر کو بروئے کار لایا جاتا ہے وہ خفیہ فرقوں، شیطان، اور شیطان پرستی سے عبارت ہیں جو یہودی علم باطن یا قبالہ (۱۸) کے ساتھ براہ راست جڑی ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر پانچ حصوں پر مشتمل فلم “منحوس طالع” (۱۹) اور سلسلہ وار فلم “جن نکالنے والا” (۲۰)انفلموں میں شامل ہیں جو انسانی زندگی پر شیطان کے براہ راست تسلط کی تصویر کشی کرتی ہیں۔ نیز فلم سیریز “ہیری پوٹر”(۲۱) میں بھی ـ گوکہ بالواسطہ طور پر جادو کے سانچے میں، جہاں “لارڈ وولڈیمورٹ” (۲۲) نامیشیطان کا کردار سامنے آتا ہے ـ اسی موضوع کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ (۲۳)
اسی اثناء میں اسلامو فوبیا اور اسلام دشمنی بھی مختلف مدارج و مراتب میں،انآخرالزمانی فلموں میں بطور، مد نظر رکھی جاتی ہے۔ یہ موضوع بھی قبالہ مکتب (یہودی علم باطن یا تصوف) کی خاص قسم کی شیطان شناسی، کے تصور اور آخرالزمانی سینما کو حاصلہ صہیونی حمایت سے جنم لیتا ہے۔ (۲۴) فلم “وش ماسٹر” (۲۵) میں شیطان ایک مجسمے کے ساتھ ایران سے امریکہ آتا ہے، فلم “جن نکالنے والا” سیریز میں شیطان سرزمین نینوا میں ملتا ہے۔ “ورلڈ وار زیڈ” (۲۶)میں مسلم زومبی ہیں جو دیوار فاصل سے گذر کر یہودیوں کو آلودہ کرنا چاہتے ہیں؛ وغیرہ وغیرہ۔
آخر میں کہنا پڑتا ہے کہ بین الاقوامیصہیونیت کے اندر ایک قاعدہ ہے کہ جو نسل، جماعت یا ملک اس کا مخالف ہو، وہ اس کو براہ راست یا بطور اشارہ اسے آخرالزمان کے واقعات سے جوڑ کر اسے شر یا بدی کی قوت قرار دیتی ہے۔ مثال کے طور پر “ممی۱” (۲۷) اور “ممی۳” (۲۸)مصری اور چینی اور فلم “ہیل بوائے” (۲۹) میں جرمن باشندے شر کی قوت ہیں؛ اور مختلف ممالک اور اقوام اور تہذیبوں کو اپنی فلموں کا موضوع بنانے کا ایک مقصد دنیا والوں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرانا اور لوگوں کی تنوع پسندی کا جواب دینا بھی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تحریر: میلاد پورعسکر
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
۱۔ فصلنامه سیاحت غرب، ارتباطات و رسانهها: قدرت مالکیت رسانهها، مرداد۱۳۸۵، شماره ۳۷، ص۴۷-۳۴٫۔
۲۔ گابلر، نیل، (Neal Gabler) امپراتوریهالیوود،(An Empire of Their Own) ترجمه: الهام شوشتری زاده، چاپ اول:۱۳۹۰، تهران، سایان.
۳۔ Thomas Alva Edison
۴۔ Universal Pictures
۵۔ Paramount Pictures
۶۔Warner Brothers
۷۔ News Corporation
۸۔ ۲۱st Century Fox
۹۔ فصلنامه راهبرد، ارتباط هویتی میانیهود و صهیونیسم، پاییز۸۵، شماره ۴۱(ISC)، ص۳۷۵-۴۱۲٫۔
۱۰۔http://jscenter.ir/jews-and-the-media/jews-and-hollywood/5886
۱۱۔ Holocaust
۱۲۔ Chicken Run
۱۳۔https://mouood.org/component/k2/item/630
http://zionism.pchi.ir/show.php?page=contents&id=20152.
۱۴۔ End of the world
۱۵۔http://old.aviny.com/occasion/jang-narm/masihyat/sayhonisti2.aspx.
دین در سینمای شرق و غرب ، محمد حسین فرج نژاد، محمد سعید قشقایی، چاپ اول ۱۳۹۶، قم، اداره کل پژوهشهای رسانه ای، ص۱۷۷٫۔
۱۶۔ The Matrix
۱۷۔ Zion
۱۸۔ Kabbalah
۱۹۔ The Omen
۲۰۔ The Exorcist
۲۱۔ Harry Potter
۲۲۔ Lord Voldemort
۲۳- دین در سینمای شرق و غرب، ص۱۷۸٫
۲۴- فصلنامه سیاحت غرب، اسلام هراسی: چگونگی گنجاندن تعصب اسلام ستیزانه در جریان غالب آمریکا، بهمن۹۱، سال دهم، شماره۱۱۴، ص۶۶-۴۰٫۔
۲۵۔ Wishmaster
۲۶۔ World War Z
۲۷۔ The Mummy (1999)
۲۸۔ The Mummy: Tomb of the Dragon Emperor
۲۹۔ Hellboy
بازدید : 716
چهارشنبه 30 ارديبهشت 1399 زمان : 9:23